کیا مومن کے قاتل کی توبہ قبول ہے

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2622  
´کیا مومن کے قاتل کی توبہ قبول ہے؟`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنی ہے، وہ بات میرے کان نے سنی، اور میرے دل نے اسے یاد رکھا کہ ایک آدمی تھا جس نے ننانوے خون (ناحق) کئے تھے، پھر اسے توبہ کا خیال آیا، اس نے روئے زمین پر سب سے بڑے عالم کے بارے میں سوال کیا، تو اسے ایک آدمی کے بارے میں بتایا گیا، وہ اس کے پاس آیا، اور کہا: میں ننانوے آدمیوں کو (ناحق) قتل کر چکا ہوں، کیا اب میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس شخص نے جواب دیا: (واہ) ننانوے آدمیوں کے (قتل کے) بعد بھی (توبہ کی امید رکھت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2622]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ایمان میں اللہ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے خوف اور اللہ کی رحمت کی امید دونوں پہلو شامل ہیں۔

(2)
اس شخص کے دل میں اللہ کا خوف موجود تھا جس کی وجہ سے اس نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اس کی توبہ کیسے قبول ہوسکتی ہے۔

(3)
جو شخص اللہ کا خوف محسوس کررہا ہو تو عالم کا چاہیے کہ اسے اللہ کی رحمت کا یقین دلائے تاکہ وہ رحمت سے ناامید ہو کر توبہ سے محروم نہ ہوجائے، البتہ جو شخص رحمت کا غلط تصور رکھتے ہوئے گناہوں میں بے باک ہوگیا ہو تو اسے اللہ کے غضب اور عذاب کی طرف توجہ دلانی چاہیے، عالم کےلیے ضرور ی ہے کہ سائل کے حالات کا لحاظ رکھتے ہوئے مناسب فتوی دے۔

(4)
خالص توبہ سے کبیرہ گناہ حتی کہ قتل کا گناہ بھی معاف ہوجاتا ہے۔

(5)
اصلاح کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ گندے ماحول کو ترک کرکے پاکیزہ ماحول اختیار کیا جائے۔

(6)
ابلیس نے جو بات کہی اس کا مطلب غالباً خوشی کا اظہار ہے کہ یہ مجرم ضرور جہنم میں جائے گا، اس لیے فرشتوں نے جواب میں اس کی توبہ کا ذکر کیا جس میں اس کی بخشش کی امید کا اظہار ہے۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2622