وضو اور غسل جنابت کے پانی کی مقدار کا بیان

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث270  
´وضو اور غسل جنابت کے پانی کی مقدار کا بیان۔`
عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضو میں ایک مد اور غسل میں ایک صاع پانی کافی ہے، اس پر ایک شخص نے کہا: ہمیں اتنا پانی کافی نہیں ہوتا، تو انہوں نے کہا: تم سے بہتر ذات کو، اور تم سے زیادہ بالوں والے (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) کو کافی ہو جاتا تھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 270]
اردو حاشہ:
:
حضرت عقیل رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ پانی استعمال کرنے کا مقصد اگر طہارت اور صفائی ہے تو رسول اللہ ﷺ صفائی پسند تھے۔
اگر احتیاط مطلوب ہے تو نبی ﷺ زیادہ متقی تھے۔
اگر یہ خیال ہے کہ بال زیادہ ہیں تو رسول اللہﷺ کے بال بھی تجھ سے کم نہ تھےلہذا سائل کا زیادہ پانی استعمال کرنا محض شک اور وسوسہ کی وجہ سے ہوسکتا ہے یا اسراف کی وجہ سےاور اس سے بچنا ضروری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 270