ماہ رمضان میں قیام اللیل (تراویح) کا بیان

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 151  
´نفل نماز باجماعت پڑھنا`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى فى المسجد فصلى بصلاته ناس، ثم صلى من القابلة فكثر الناس، ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة او الرابعة فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم. فلما اصبح قال: قد رايت الذى صنعتم فلم يمنعني من الخروج إليكم إلا اني خشيت ان يفرض عليكم وذلك فى رمضان . . .»
. . .سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں (رات کی) نماز (تراویح) پڑھی تو (بعض) لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (آپ کے پیچھے) نماز پڑھی، پھر آنے والی رات جب آپ نے نماز پڑھی تو لوگ زیادہ ہو گئے، پھر تیسری یا چوتھی رات کو (بہت) لوگ اکٹھے ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس (نماز پڑھانے کے لیے) باہر تشریف نہ لائے، جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے (رات کو) جو کیا وہ میں نے دیکھا تھا لیکن میں صرف اس وجہ سے تمہارے پاس نہ آیا کیونکہ مجھے خوف ہو گیا تھا کہ یہ (قیام) تم پر فرض نہ ہو جائے۔ یہ واقعہ رمضان میں ہوا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 151]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1129، ومسلم 761، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ نماز تراویح سنت ہے واجب یا فرض نہیں ہے۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 759/174 و الموطأ رواية يحييٰ 113/1 ح 247]
➋ چونکہ اب فرضیت کا خوف زائل ہو گیا ہے لہذا نماز تراویح با جماعت افضل ہے۔ دیکھئے: [الموطأ حديث: 29، تفقه 1، البخاري 2009، ومسلم 759/173]
➌ اس پر اجماع ہے کہ نوافل (تراویح وغیرہ) میں نہ اذان ہے اور نہ اقامت۔ [التمهيد 108/8]
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر بہت زیادہ مہربان اور شفیق تھے۔
➎ علمائے کرام کا تراویح کی تعداد میں بہت اختلاف ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 113/8، وعمدة القاري للعيني 126/11، والحاوي للفتاوي 338/1، والفهم لما اشكل من تلخيص كتاب مسلم 389/2، وسنن الترمذي 806]
قرطبی (متوفی 656 ھ) نے کہا:
اور اکثر علماء نے کہا ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئے، انھوں نے اس مسئلے میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سابق سے استدلال کیا ہے۔ [المفهم:390/2]
➏ بیس تراویح پر اجماع کا دعویٰ باطل ہے۔ امام شافعی نے فرمایا: اگر رکعتیں کم اور قیام لمبا ہو تو بہتر ہے اور (یہ) مجھے زیادہ پسند ہے۔ [ملخصاً / مقريزي كي مختصر قيام اليل للمروزي ص202، 203، تعداد ركعات قيام رمضان كا جائزه ص 85]
➐ اس حدیث سے صحابہ کرام کا شوق عبادت ظاہر ہوتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 36   


  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1373  
´ماہ رمضان میں قیام اللیل (تراویح) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھی تو آپ کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلی رات کو بھی پڑھی تو لوگوں کی تعداد بڑھ گئی پھر تیسری رات کو بھی لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے ہی نہیں، جب صبح ہوئی تو فرمایا: میں نے تمہارے عمل کو دیکھا، لیکن مجھے سوائے اس اندیشے کے کسی اور چیز نے نکلنے سے نہیں روکا کہ کہیں وہ تم پر فرض نہ کر دی جائے ۱؎ اور یہ بات رمضان کی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1373]
1373. اردو حاشیہ: فائدہ: صحیح بخاری میں تیسری رات بھی نماز پڑھنے کا ذکر ہے۔ دیکھئے [صحیح بخاری، الجمعة، حدیث:924]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1373   


  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:729  
729. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نماز تہجد اپنے حجرے میں پڑھا کرتے تھے۔ چونکہ حجرے کی دیواریں بہت چھوٹی تھیں، اس لیے لوگوں نے نبی ﷺ کی شخصیت کو دیکھ لیا اور کچھ لوگ نماز کی اقتدا کرنے کے لیے آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ پھر صبح کو انہوں نے دوسروں سے اس کا ذکر کیا۔ بعد ازاں دوسری رات نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو کچھ لوگ اس رات بھی آپ کی اقتدا میں کھڑے ہو گئے۔ یہ صورت حال دو یا تین راتوں تک رہی۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ بیٹھ رہے اور نماز کے لیے تشریف نہ لائے۔ اس کے بعد صبح کے وقت لوگوں نے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: مجھے اس بات کا ڈر ہوا کہ کہیں نماز شب تم پر فرض نہ کر دی جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:729]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ امام اور مقتدیوں کے درمیان دیوار یا راستہ حائل ہوتو بھی اقتدا صحیح ہے بشرطیکہ امام کی تکبیر خود سنے یا کوئی دوسرا سنادے۔
دور حاضر میں لاؤڈ سپیکر نے اس مشکل کو کافی حد تک آسان کردیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تائید میں احادیث وآثار پیش کیے ہیں۔
احناف نے مسجد اور صحراء کا فرق کرکے تکلف سے کام لیا ہے۔
(2)
حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ آپ کے گھر سے متعلق ہے کیونکہ اس میں حجرے کی دیواروں کا ذکر ہے، چنانچہ بعض روایات میں صراحت ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے حجروں میں سے کسی ایک حجرے میں نماز شب پڑھا کرتے تھے، البتہ بعض شارحین نے اس سے مراد جائے اعتکاف لی ہے اور جدار سے مراد بوریوں کی دیوار لی ہے، جیسا کہ آئندہ روایات میں اس کا ذکر ہے۔
ہمارے نزدیک یہ دو الگ الگ واقعات ہیں، کیونکہ جدار سے مراد بوریوں کی دیوار ہو، یہ بہت بڑا مجاز ہے جس کی مثال کلام عرب میں نہیں ملتی۔
والله أعلم۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ حجرے کے اندر نماز پڑھتے تھے اور لوگوں نے آپ کی اقتدا باہر کھڑے ہوکر کی، آپ کے اور لوگوں کے درمیان دیوار حائل تھی اسے برقرار رکھا گیا، لہٰذا ایسا کرنا جائز ہے۔
(فتح الباري: 278/2)
وهو المقصود.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 729