شوہر کی اجازت کے بغیر عورت نفلی روزہ رکھے تو اس کے حکم کا بیان

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1762  
´شوہر کی اجازت کے بغیر عورت نفلی روزہ رکھے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو منع فرمایا کہ وہ اپنے شوہروں کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ رکھیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1762]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ہمارے فا ضل محقق اس روایت کی با بت لکھتے ہیں کہ یہ سنداً تو ضعیف ہے لیکن گزشتہ روایت اس کی شا ہد ہے جو کہ صحیح ہے علا وہ ازیں دیگر محققین نے شواہد کی بنا پر اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
تفصیل کے لئےدیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 283، 282/18، وسنن ابن ماجة للدکتور بشار عواد، حدیث: 1762)
 لہٰذا مذکورہ روایت میں بیان کردہ مسئلہ دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔

(2)
فرض کی ادائیگی کے لئے کسی سے اجا زت لینے کی ضرورت نہیں
(3)
نفلی روزے رکھنے میں چو نکہ خا وند کا حق متاثر ہونے کا اندیشہ ہے خصوصا جب کے عورت کثرت سے نفلی روزے رکھے اس لئے نفلی روزے میں عورت کو چاہیے کہ خا وند سے اجازت لے لے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1762   


  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2459  
´شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے (نفل) روزے رکھنے کے حکم کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، ہم آپ کے پاس تھے، کہنے لگی: اللہ کے رسول! میرے شوہر صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ جب نماز پڑھتی ہوں تو مجھے مارتے ہیں، اور روزہ رکھتی ہوں تو روزہ تڑوا دیتے ہیں، اور فجر سورج نکلنے سے پہلے نہیں پڑھتے۔ صفوان اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ان باتوں کے متعلق پوچھا جو ان کی بیوی نے بیان کیا تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اس کا یہ الزام کہ نماز پڑھنے پر میں اسے مارتا ہوں تو بات ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2459]
فوائد ومسائل:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت و تزکیہ سے مردوں کے علاوہ خواتین بھی بہرہ ور تھیں اور ان میں آخرت کی رغبت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ اس طرح کی شکایت سامنے آئی جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
حیف ہے ان لوگوں پر جو اس طرح کی مقدس ہستیوں کے ایمان کو مشکوک گردانتے ہیں۔

(2) شوہر کو حق ہے کہ بلا تخصیص وقت اپنی بیوی سے تمتع کرے، گویا حقوق تمتع اس کی ملک ہیں، بیوی کسی طرح انکار نہیں کر سکتی الا یہ کہ عذر شرعی اور معقول ہو، بلکہ انکار پر مناسب سزا بھی مباح ہے۔

(3) بعد از فاتحہ مختصر قراءت سے بھی نماز کامل ہوتی ہے۔

(4) عورت کو اس قدر لمبی نماز نہیں پڑھنی چاہیے کہ شوہر اس کے انتظار میں پیچ و تاب کھاتا رہے۔

(5) بیوی کو نفلی روزے شوہر کی اجازت کے بغیر نہیں رکھنے چاہئیں۔
بعض اوقات یہ اجازت میلان طبع سے بھی سمجھی جا سکتی ہے۔

(6) جناب صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابہ میں سے تھے۔
ان کا ذکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق واقعہ افک میں بھی آتا ہے۔
ان کا سورج چڑھنے نماز پڑھنا تو واقعتا بعد از طلوع ہوتا تھا یا مراد ہے کہ بالکل آخری وقت میں پڑھتے تھے کہ سورج نکلنے والا ہوتا۔
اور اس کا سبب انہوں نے بیان کیا ہے کہ یہ گویا خاندانی عادت سی تھی کہ یہ لوگ نیند کے متوالے تھے اگر کوئی جگانے والا نہ ہوتا تو ازخود جاگ نہ سکتے تھے۔
ایک عذر یہ بھی بیان ہوا کہ یہ لوگ رات کو دیر تک پانی ڈھوتے تھے اور دیر سے سونے کی وجہ سے صبح بروقت جاگ نہ سکتے تھے۔
بہرحال اگر عذر معقول ہو تو شرعا قبول ہے کہ سونے والے پر مواخذہ نہیں، ایسی صورت میں جب جاگ آئے فورا نماز پڑھ لے۔
اس سے صبح دیر سے اٹھ کر نماز پڑھنے کے معمول کو جواز بنانے پر استدلال نہیں کیا جا سکتا، اس لیے حضرت صفوان رضی اللہ عنہ کو یہ اجازت تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی، جن کو اس قسم کی صورت حال میں بذریعہ وحی مطلع کر دیا جاتا تھا۔
اس لیے حضرت صفوان کا عذر تو معقول سمجھ لیا گیا، لیکن ہم اپنے تساہل کو بھی اسی طرح کا معقول عذر سمجھ لیں، تو اس میں کوئی معقولیت نہیں ہو گی۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2459