خطبہ جمعہ کی کیفیت کا بیان

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1405  
´خطبہ جمعہ کی کیفیت کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ حاجة ۱؎ سکھایا، اور وہ یہ ہے: «الحمد لله نستعينه ونستغفره ونعوذ باللہ من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا من يهده اللہ فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی سے مدد اور گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں، اور ہم اپنے نفسوں کی شر انگیزیوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دیدے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، پھر آپ یہ تین آیتیں پڑھتے: «يا أيها الذين آمنوا اتقوا اللہ حق تقاته ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون» اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا کہ اس سے ڈرنا چاہیئے، اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا (آل عمران: ۱۰۲)۔ «يا أيها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبث منهما رجالا كثيرا ونساء واتقوا اللہ الذي تساءلون به والأرحام إن اللہ كان عليكم رقيبا‏» اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں، اور اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو، اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو، بیشک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے (الاحزاب: ۷۰) «يا أيها الذين آمنوا اتقوا اللہ وقولوا قولا سديدا» اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور صحیح و درست بات کہو (النساء: ۱)۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: ابوعبیدہ نے اپنے والد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ہے، نہ ہی عبدالرحمٰن بن عبداللہ ابن مسعود نے، اور نہ ہی عبدالجبار بن وائل بن حجر نے، (یعنی ان تینوں کا اپنے والد سے سماع نہیں ہے)۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1405]
1405۔ اردو حاشیہ:
➊ مذکورہ روایت سند کے لحاظ سے منقطع ہے۔ محقق کتاب نے بھی اسے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے دیگر شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔ دلائل کی رو سے راجح اور درست بات یہی ہے کہ مذکورہ روایت شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [خطبة الحاجة لشیخ ناصر الدین الألباني، وذخیرة العقبیٰ، شرح سنن النسائي: 238، 237/16]
➋ متعلقہ حدیث میں تو صرف ابوعبیدہ کا ذکر ہے۔ باقی دو حضرات کا ذکر بالتبع کر دیا گیا ہے کیونکہ تینوں بزرگ اس بات میں شریک ہیں کہ انہوں نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا۔ تینوں کے والد صحابی ہیں۔
ضرورت کے موقع پر یعنی جب بھی خطبے کی ضرورت ہو، خواہ وعظ ہو یا نکاح یا کچھ اور۔ اسی وجہ سے امام نسائی رحمہ اللہ اس روایت کو خطبۂ جمعہ میں لائے ہیں کیونکہ یہ بھی ایک حاجت اور ضرورت ہے۔ بعض حضرات نے مذکورہ آیات کی مناسبت سے یہاں حاجت نکاح مراد لی ہے۔ استاد محترم حضرت الحافظ محمد گوندلوی محدث رحمہ اللہ درس بخاری کے آغاز میں یہی خطبہ پڑھا کرتے تھے۔ ان آیات میں تقوے کا حکم ہے اور تقویٰ ہر کام میں ضروری ہے، نہ کہ صرف نکاح میں۔ واللہ أعلم۔
جسے وہ گمراہ کر دے اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی طرف سے گمراہ نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے گمراہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ گمراہ کو گمراہی سے زبردستی نہیں روکتا بلکہ وہ اپنی مرضی سے جس طرف جاتا ہے، جانے دیتا ہے کیونکہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے، اسی لیے اس کا انتساب بھی اسی کی طرف کر دیا جاتا ہے، ورنہ درحقیقت اس میں انسان کے اپنے اس ارادے و اختیار کا دخل ہوتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے بطور امتحان انسان کو نوازا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1405   


  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1097  
´کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ پڑھتے تو کہتے: «الحمد لله نستعينه ونستغفره ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، أرسله بالحق بشيرا ونذيرا بين يدي الساعة، من يطع الله ورسوله فقد رشد، ومن يعصهما فإنه لا يضر إلا نفسه ولا يضر الله شيئا» ہر قسم کی حمد و ثنا اللہ ہی کے لیے ہے، ہم اسی سے مدد ما نگتے ہیں اور اسی سے مغفرت چاہتے ہیں، ہم اپنے نفس کی برائیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، اللہ تعالیٰ جسے ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں برحق رسول بنا کر قیامت آنے سے پہلے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ سیدھی راہ پر ہے، اور جو ان دونوں کی نافرمانی کرے گا وہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچائے گا، اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1097]
1097۔ اردو حاشیہ:
اس موضوع پر محدث البانی رحمہ اللہ کا رسالہ خطبۃ الحاجۃ قابل مطالعہ ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1097   


  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1892  
´خطبہ نکاح کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیر کے جامع کلمات دیئے گئے تھے ۱؎ خواہ وہ اخیر کے ہوں، یا کہا: شروع کے، آپ نے ہمیں صلاۃ کا خطبہ سکھایا اور حاجت کا خطبہ بھی، صلاۃ کا خطبہ یہ ہے: «التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» آداب بندگیاں، صلاتیں اور پاکیزہ خیراتیں، اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر، م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1892]
اردو حاشہ:
فوائد ومساءل:

(1)
حدیث کے متن میں یہ آیات مختصر طور پر ذکر کی گئی ہیں۔
ہم نے ترجمہ میں پوری آیات ذکر کر دی ہیں۔

(2)
جو امع الخیر کا مطلب یہ ہے کہ ایسے نیکی کے کام جن میں سے ایک ایک کام زندگی کے مختلف شعبوں پر اثر انداز ہو کر انہیں صحیح رخ پر ڈال دیتا ہے۔
فواتح الخیر (نیکی کے شروع کے کام)
سے بھی یہی مراد ہے۔
نیکی کے آخر کی چیزوں یا کلمات سے مراد یہ ہے کہ ایسے عمل یا کلمات جن کی وجہ سے انسان نیکی کے اعلٰی سے اعلٰی درجات پر پہنچ سکتا ہے۔
واللہ أعلم
(3)
خطبہ خطاب کو کہتے ہیں۔
نماز کے خطبہ سے مراد وہ دعائیں ہیں جن کے ذریعے سے بندہ اپنے رب سے مخاطب ہوتا ہے۔

(4)
خطبہ حاجت سے مراد وہ کلمات ہیں جو رسول اللہ ﷺ ہر اہم موقع پر خطاب فرماتے وقت ابتدا میں ارشاد فرماتے تھے۔
جمعے کے خطبے میں بھی یہ الفاظ پڑھے جاتے ہیں۔

(5)
نکاح زندگی کا ایک اہم موڑ ہے لہٰذا اس اہم موقع پر یہ الفاظ اور آیات پڑھ کر ایجاب و قبول کرانا چاہیے۔

(6)
ان آیات میں عائلی زندگی کے بارے میں بنیادی رہنمائی کے بارے میں ارشارات موجود ہیں۔
علمائے کرام کو چاہیے کہ حاضرین کو اس مناسبت سے مختصرا وعظ و نصیحت فرمائیں۔

(7)
اس سے معلوم ہوا کہ خطبہ اور ایجاب و قبول بعد میں کروانا چاہیے۔

(8)
یہ روایت بعض محدثین کے نزدیک صحیح ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1892   


  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 829  
´(نکاح کے متعلق احادیث)`
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حاجت و ضرورت میں یہ تشہد سکھایا کہ «إن الحمد لله نحمده، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ونستعينه، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ونستغفره، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ من يهد الله فلا مضل له، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ومن يضلل فلا هادي له، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأشهد أن لا إله إلا الله، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» سب تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں۔ ہم اس کی حمد کرتے ہیں اور اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اسی سے مغفرت و بخشش مانگتے ہیں اور اپنے نفسوں کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت سے نوازے اسے پھر کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے اللہ ہی گمراہ کرے اسے پھر کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ پھر تین آیات تلاوت فرمائیں۔ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے۔ ترمذی اور حاکم نے اسے حسن کہا ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 829»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، النكاح، باب في خطبة النكاح، حديث:2118، والترمذي، النكاح، حديث:1105، والنسائي، الجمعة، حديث:1405، وابن ماجه، النكاح، حديث:1892، وأحمد:1 /393، والحاكم:2 /182.* أبو عبيدة عن أبيه منقطع، وأبو إسحاق عنعن في السند الموصول، فالسند معلل، ولم أجد طريق شعبة عن أبي إسحاق عن أبي الأحوص عن ابن مسعود.....، والله أعلم.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے اور دلائل کے اعتبار سے انھی کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔
بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
مزیدتفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۶ /۲۶۳‘ ۲۶۴) 2.یہ خطبہ صرف خطبۂ نکاح نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر حاجت و ضرورت کے لیے سکھایا ہے۔
علامہ یمانی نے تو فرمایا ہے کہ نکاح کرنے والے کو خود یہ خطبہ پڑھنا چاہیے۔
مگر یہ سنت متروک ہو چکی ہے۔
3.جن تین آیات کا حدیث میں ذکر ہے‘ وہ یہ ہیں: سورۂ آل عمران آیت: 102‘ سورۂ نساء آیت: 1‘ سورۂاحزاب آیت:70 ‘71 – 4.اہل ظواہر اس خطبے کو واجب قرار دیتے ہیں اور شوافع میں سے ابوعوانہ نے بھی اسے واجب کہا ہے‘ مگر جمہور علمائے امت کے نزدیک یہ مسنون اور مستحب عمل ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 829