بیت المقدس تک جانے کا قصہ

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3886  
´بیت المقدس تک جانے کا قصہ`
«. . . يَقُولُ:" لَمَّا كَذَّبَنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ فَجَلَا اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ. . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب قریش نے (معراج کے واقعہ کے سلسلے میں) مجھ کو جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے میرے لیے بیت المقدس کو روشن کر دیا اور میں نے اسے دیکھ کر قریش سے اس کے پتے اور نشان بیان کرنا شروع کر دیئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ: 3886]

تخريج الحديث:
[109- البخاري فى: 63 كتاب مناقب الانصار: 41 باب حديث الاسراء۔۔۔ 3886، مسلم 170، ترمذي 3133]

لغوی توضیح:
«الحِجر» مراد حطیم ہے، یعنی بیت اللہ کے عراقی اور شامی کونے کے درمیان وہ جگہ جس کے گرد دائرے کی شکل میں ایک چھوٹی سی دیوار بنائی گئی ہے۔ جس کا مقصد ہے کہ لوگ اس کے باہر سے طواف کریں کیونکہ وہ جگہ بھی بیت اللہ کا حصہ ہے۔ دراصل ایامِ جاہلیت میں کفار مکہ کی حلال کمائی کم پڑ جانے کی وجہ سے اس جگہ کو بغیر تعمیر کیے ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس جگہ کو «حِجْرِ اِسْمَاعِيْل» بھی کہا جاتا ہے۔
«فَجَلَا» کھول دیا، ظاہر کر دیا۔

فھم الحدیث:
دراصل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قریش کے سامنے واقعہ معراج بیان کیا تو انہوں نے اس کی شدید مخالفت کی اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کے دوران بیت المقدس کا بھی ذکر فرمایا تھا اس لیے قریش نے آپ سے بیت المقدس کی صفات کے بارے میں سوال کر لیا، تب اللہ تعالیٰ نے آپ کے سامنے بیت المقدس ظاہر فرما دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے سامنے بیت المقدس کی نشانیاں اور صفات بیان کرنا شروع کر دیں۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 109   


  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3886  
3886. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب قریش نے (اسراء کی بابت) میری تکذیب کی تو میں حطیم میں کھڑا ہو گیا۔ اللہ تعالٰی نے بیت المقدس میرے سامنے کر دیا تو میں ان لوگوں کو اس کی نشانیاں بتانے لگا جبکہ اس وقت میں اسے دیکھ رہا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3886]
حدیث حاشیہ:
معراج کی رات کو آپ ام ہانی کے گھر میں تھے، تو مسجد حرام سے حرم کی زمین مراد ہے۔
آپ کا معراج مکہ سے بیت المقدس تک تو قطعی ہے۔
جو قرآن پاک سے ثابت ہے اس کا منکر قرآن کامنکر ہے اور قرآن کا منکر کافر ہے اور بیت المقدس سے آسمانوں تک صحیح حدیث سے ثابت ہے اس کا منکر گمراہ اور بدعتی ہے۔
حافظ نے کہا اکثر علماء سلف اور اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ یہ معراج جسم اور روح دونوں کے ساتھ بیداری میں ہوا۔
یہی امر حق ہے۔
بیہقی کی روایت میں یوں ہے کہ آپ نے جب معراج کا قصہ بیان کیا تو کفار قریش نے انکار کیا اورابو بکر ؓ کے پاس آئے انہوں نے آپ کی تصدیق کردی اس دن سے ان کالقب صدیق ؓ ہوگیا۔
بزار نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بیت المقدس کی مسجد لائی گئی اور عقیل کے گھر کے پاس رکھ دی گئی۔
میں ا س کو دیکھتا جاتا اور اس کی صفت بیان کرتا جاتا تھا۔
بعض نے کہا کہ اسراءاور معراج دونوں الگ الگ راتوں میں ہوئے ہیں کیونکہ حضرت امام بخاری ؒ نے ہر دوکو الگ الگ بابوں میں بیان کیا ہے مگر خود حضرت امام بخاری ؒ نے کتاب الصلوۃ میں یہ باب باندھا ہے کہ لیلۃ الاسراء میں نماز کس طرح فرض ہوئی۔
معلوم ہواکہ اسراءاور معراج ایک ہی رات میں ہوئے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3886   


  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3886  
3886. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب قریش نے (اسراء کی بابت) میری تکذیب کی تو میں حطیم میں کھڑا ہو گیا۔ اللہ تعالٰی نے بیت المقدس میرے سامنے کر دیا تو میں ان لوگوں کو اس کی نشانیاں بتانے لگا جبکہ اس وقت میں اسے دیکھ رہا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3886]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے اسراء اور معراج کے لیے الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اسراء اور معراج الگ الگ راتوں میں ہوئے ہیں مگر یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ امام بخاری ؒ نے کتاب الصلاۃ میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:
(باب كيف فرضت الصلاة في الإسراء)
اسراء کی رات نماز کس طرح فرض ہوئی؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسراء اور معراج ایک ہی رات میں ہوئی ہیں کیونکہ نمازوں کی فرضیت معراج کے موقع پر ہوئی تھی۔
(فتح الباري: 247/7)

اکثر علمائے سلف اور محدثین کا موقف ہے کہ اسراء اور معراج جسم اور روح دونوں کے ساتھ بیداری کی حالت میں ہوئے۔

جب رسول اللہ ﷺ نے معراج کا واقعہ بیان کیا تو کفار قریش نے انکار کیا اور سیدنا ابو بکر ؓ نے اس کی تصدیق کی۔
اس دن سے حضرت ابو بکر ؓ کا لقب "صدیق"ہوگیا۔

مسجد حرام سے مسجد اقصی کی طرف جانے میں یہ حکمت ہے کہ آپ دونوں قبلوں کی زیادت کر لیں اور وہاں جا کر انبیائے کرام ؑ کی امامت کرائیں۔
یا اس لیے وہاں تشریف لے گئے کہ بیت المقدس مقام محشر ہے، آپ وہاں گئے تاکہ مختلف فضائل سے شرف یاب ہوں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3886