باپ کا بیٹی کی رضا مندی کے بغیر اس کا حق مہر لے لینا

بیٹی جب حق مہر کی مالک بن چکی ہوتو باپ اس کی رضا مندی کے بغیر بھی اس کا حق مہر لے سکتا ہے، الا یہ کہ وہ اس کی ضرورت مند ہو اور اس کی ضروریات اس حق مہر کے بغیر پوری نہ ہوسکتی ہوں، اس صورت میں باپ نہیں لے سکتا، کیونکہ ذاتی ضرورت غیر کی ضرورت پر مقدم ہے، اگر باپ نکاح یا منگنی کے وقت یہ شرط لگائے کہ حق مہر میں اتنا اتنا میرے لیے ہوگا اور لڑکے کو اس کی ادائیگی کا پابندکرے تو یقیناً یہ حرام ہے، حلال نہیں ہے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیٹیاں باپوں کے ہاں فروخت کردہ سامان کی مانند ہیں کہ جن کی قیمت میں اتار چڑھاؤ آتارہتا ہے، یہ امانت میں خیانت کے مترادف ہے، جس طرح کہ کئی لوگ اس کے مرتکب ہوتے ہیں، باپ یہ نہیں دیکھتا کہ لڑکا دین اور اخلاق کے اعتبار سے کیسا ہے؟ بلکہ یہ نظریہ رکھتا ہے کہ حق مہر میں سے اسے دوسروں کی نسبت زیادہ کون دیتا ہے؟ سرپرستوں کو متنبہ ہوجانا چاہیے کہ حق مہر میں سے ذاتی نوعیت کی کسی چیز کی بھی شرط لگانا اُن کے لیے حلال نہیں ہے، خواہ باپ ہو، بھائی ہو، چچا ہو یاکوئی اور، یہ شادی شدہ عورت کا حق ہے جو اس کی شرمگاہ اور اس سے استفادہ کا عوض ہے، کسی کا بھی اس پر قبضہ واختیار نہیں ہوسکتا۔ [ابن عثيمين: نور على الدرب، ص: 14]